صفحة خطأ ):
الصفحة التي تبحث/ي عنها غير موجودة

يمكنك محاولة كتابة كلمة البحث مضبوطه أو الضغط على الزر التالي للعودة للرئيسية

الرئيسية

Tuesday, April 16, 2019

ملکی معیشت اور آئی ایم ایف کا قرضہ

پاکستان کے معاشی بحران کی شدت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ حکومتی زعما سے لے کر عام کاروباری طبقے تک معاشی جمود کے بارے میں پوری طرح آگاہ ہیں۔ موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد معاشی بحران کی شدت میں اضافہ ہوا۔

حکومت نے معاشی بحران کی شدت کو کم کرنے کے لیے دوست ممالک سے تعاون مانگا جو کسی حد تک ملا بھی ہے لیکن پھر بھی معاشی استحکام حاصل نہ ہوسکا، اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے کی کوشش بھی ہوتی رہی لیکن آئی ایم ایف کی شرائط کے حوالے سے تحفظات قائم رہے جس کی وجہ سے معاملات طے نہیں ہو سکے۔

اب یہ اطلاع سامنے آئی ہے کہ بلاآخر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)کے درمیان معاملات طے پانے کی تصدیق کردی۔ آئی ایم ایف سے 6 سے 8 ارب ڈالر کا معاہدہ ہوگا جب کہ ساڑھے 7 ارب عالمی مالیاتی بینک سے آئیں گے۔ آئی ایم ایف کا وفد اپریل کے آخر اور ایف اے ٹی ایف کا مئی کے وسط میں پاکستان آئے گا۔

گزشتہ روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بریفنگ کے دوران وزیرخزانہ اسدعمر نے بتایا کہ واشنگٹن میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک حکام کے ساتھ ملاقات ہوئی۔آئی ایم ایف کے ساتھ اتفاق رائے ہو گیا ہے، آئی ایم ایف سے معاہدے کے فوراً بعد ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے فنڈز ملیں گے۔جس سے زرمبادلہ ذخائر میں اضافے کے ساتھ کیپیٹل مارکیٹ میں استحکام نظر آئے گا۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان میں جاری معاشی اصلاحات کو سراہا ہے۔آیندہ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے بھی پاکستان کی مدد کی جائے گی۔

آئی ایم ایف کے ساتھ جن معاملات یا شرائط پر اتفاق ہوا ہے یا جو معاہدہ ہونے جا رہا ہے‘ اس کی شرائط مکمل طور پر سامنے نہیں آ سکیں‘ اس لیے اس کے بارے میں فوری طور پر کوئی رائے نہیں دی جا سکتی تاہم وزیر خزانہ نے جو کچھ کہا ہے اسے سامنے رکھا جائے تو یہی لگتا ہے کہ ملکی معیشت کو سہارا مل جائے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ملک میں مہنگائی کا گراف غیرمعمولی طور پر اوپر گیا ہے‘ اس کی وجہ سے عام آدمی خصوصاً سفید پوش طبقے کی معاشی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ادویات اور پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے مہنگائی کی شدت کو مزید بڑھایا ہے۔

ادھر آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹوں میں پاکستانی معیشت کے بارے میں جو کچھ کہا گیا‘ اس کی وجہ سے کاروباری طبقے میں بے چینی بڑھی۔ا سٹاک مارکیٹ مسلسل عدم استحکام کا شکار رہی اور کاروباری سرگرمیاں سست پڑتی چلی گئیں۔ ڈالر کی قدر میں اضافے نے بھی صورت حال کو گمبھیر کیا۔

ان سارے معاملات نے مل کر ایسی صورت حال پیدا کر دی جس کی وجہ سے پورے ملک پر معاشی جمود طاری ہو گیا۔ اب آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی خبر سے کم از کم کاروباری طبقے کا اعتماد کسی حد تک بحال ہو جائے گا اور حکومت اس قابل ہو جائے گی کہ وہ ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع کر سکے۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر پاکستان کی معاشی کریڈیبیلٹی میں بھی کسی حد تک استحکام آجائے گا جس سے غیرملکی سرمایہ کاروں کا خوف بھی کم ہو جائے گا۔ یوں پاکستان میں کاروباری سرگرمیاں بحال ہونے کا عمل شروع ہو جائے گا۔

صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مہنگائی مزید بڑھنے کا امکان ہے‘ ڈالر کی قدر میں بھی مزید اضافے کی باتیں سننے میں آرہی ہیں۔ پاکستان پر غیرملکی قرضوں کا بوجھ بھی غیرمعمولی طور پر بڑھ جائے گا۔ صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے ملنے والے مالی ریلیف کا فائدہ اٹھائے۔ بے جا اخراجات کو ختم کرنے پر توجہ دی جائے۔ غیرترقیاتی اخراجات کو کم سے کم کیا جائے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ کمٹمنٹ پر پورا اترنے کی کوشش کی جائے۔

جنوبی کوریا‘ انڈیا اور ملائیشیا کی مثال کو سامنے رکھا جائے کہ ان ممالک نے قرضے بھی لیے لیکن ان کا استعمال دانشمندی سے کیا جس کے نتیجے میں ان ممالک نے غیرملکی قرضوں کو مقررہ مدت کے اندر واپس بھی کیا اور اپنی معیشت کو بھی استحکام کی منزل کی جانب رواں دواں کیا۔ حکومت کو ملکی معیشت کو چلانے کے لیے غیرسیاسی انداز میں کام کرنا ہوگا یعنی معیشت کے فیصلے معاشی اصولوں کی بنیاد پر ہی کیے جائیں اور کسی قسم کی سیاسی بلیک میلنگ میں آکر غلط فیصلے نہ کیے جائیں۔

The post ملکی معیشت اور آئی ایم ایف کا قرضہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2UHKdv4
via IFTTT

No comments:

Copyright © 2019 Urdu Blogg - All Rights Reserved.